disobedient son

میںرا نام علی خان ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں کالج میں پڑھتا تھا ۔یہ کہانی مینرے ایک دوست کی ہے ۔جس کا نام سعد تھا ۔سعد میںرا بہت اچھا دوست تھا۔کافی پیار تھا ہم دونوں میں مگر سعد میں ایک برائی تھی کے وہ بہت لالچی لڑکا تھا۔پیسے کی تو جیسے بھوک تھی اسے ۔سعد کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا ۔مگر سعد اپنے والدین کی اولاد نہیں تھا سعد کے والد نے اسے گود لیا تھا۔
ہمارا کالج میں لاسٹ year تھا۔میں اکثر سعد سے کہتا تھا کے تو لکی ہے کسی بات کی پریشانی نہیں تجھے مگر مجھ پر بہت زمیندری ہے ۔مگر ایک دن سعد نے مجھ سے کچھ ایسا کہا کے میں حیران اور پریشن ہوگیا اس کی بات سن کر اس نے کہا ۔
سعد ۔یار میں چاہتا ہوں کے زندگی میں کوئی روک ٹوک نہ ہو اپنی مرضی سے ہو سب کچھ کہیں بھی آؤ کہیں بھی جاؤ کوئی بولنے والا نہ ہو مجھے بابا کی ہر ٹائم کی چک چک بری لگتی ہے پیسے کی کوئی کمی نہیں مگر پھر بھی کنجوسی میں رهتے ہیں ہر وقت ۔
علی ۔یار وہ بڑے ہیں ھمارے بھلے کا ہے سوچتے ہیں ابھی وہ سلامت ہیں تو قدر کر ان کی جب نہیں ہونگے تو روےگا ۔
سعد ۔میں رونا ہے تو چاہتا ہوں ۔
علی ۔یہ کیا بکواس کرہا ہے ۔
سعد ۔بکواس نہیں سچ کرہا ہوں ۔مجھ سے اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا میں مار دونگا اپنے والدین کو اور وسیے بھی کون سے یہ مینرے سگے ہیں ۔
علی ۔بہت ہے گٹیا سوچ ہے تیری اور مجھے نہیں لگتا کے اب ہم مزید ساتھ چل سکتے ہیں ۔
سعد کی یہ بات سن کر مجھے اس سے نفرت سی ہوگئی اور میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔
میں نے سعد سے ملنا چھوڑ دیا ۔پھر ایک دن خبر ملی کے سعد کے والدین کا انتقال ہوگیا ہے سن کر دکھ ہوا مگر مجھے سعد کی وہ بات یاد آگئی جو اس نے مجھ سے کہی تھی ۔بہار حل میں اس کے گھر گیا تو پتا چلا کے سعد کو پولیس پکڑ کر لیگی ہے۔
تھوڑی دیر بعد پھر پولیس والے آے اور گھر کے ملازمین اور مجھے بھی ساتھ لیگے میں بہت ڈر گیا تھا کے یہ سب کیا ہورہا ہے اور ان سب میں مجھے کیون لپیٹا جارہا ہے ۔
پولیس افسر نے مجھ سے کہا ۔
ہمیں شک ہے کے تم نے اور سعد نے مل کر اپنے والدین کا قتل کیا ہے ۔
علی ۔نہیں سر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں نے سعد سے دوستی ہے ختم کردی ہے ۔میں تو اب اسے سے بات تک نہیں کرتا ۔
افسر ۔کیون ؟ تم تو اچھے دوست ہو ۔
میں نے ساری کہانی ان کو بتادی ۔وہ مجھے لے کر دوسرے روم میں گے جہاں پہلے سے سعد موجود تھا ۔
افسر ۔دیکھو بھائی تمہارے دوست نے تو سب اگل دیا ہے اب چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں بولو کیوں مارا اپنے والدین کو ؟۔ 
سعد غصے سے مجھے دیکنھے لگا ۔اور بولا ۔
سعد ۔ہان ٹھیک کہا آپ نے سر ۔میں نے ماروايا ہے مرا نہیں اور جس سے یہ کام کروایا ہے وہ اپنا بیان کیسے دیگا کیوں کے وہ تو ایک جانور ہے ۔مینرے والدین کو سانپ نے کاٹا ہے اور یہ ایک حادثہ ہے آپ اس کو قتل کی شکل نہیں دیسکتے سانپ نے ڈسا اور چلا گیا اب آپ خود بتاؤ کے سانپ کو کوئی کیسے سمجھا سکتا ہے کے جاؤ قتل کر کے آجاؤ ۔
کوئی سبوت نہ ہونے کی وجہ سے آخر سعد کو چھوڑ دیا ۔
تادفین سے فارغ ہونے کے بعد میں نے سعد سے کہا مجھے تم سے بات کرنی ہے مگر اس کے انداز بدلے ہوے تھے وہ مینری طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا میں نے اسے زور دیا تو وہ بات کرنے پر راضی ہوگیا ۔
سعد ۔ہان بولو کیا کہنا ہے تمیں ؟
علی ۔یہ کیا کردیا تم نے اور ذرا افسوس نہیں تمیں ذرا رحم نہیں آیا تمیں ؟
سعد ۔دیکھو میں پہلے ہے تمیں اپنے دل کی بات بتا کر پشتا رہا ہوں ۔مزید تمیں کچھ نہیں بتانا چاہتا ۔
میں اٹھ کر جانے لگا تو سعد نے آواز دی روکو ۔
سعد ۔بیٹھ جب پولیس کو بتادیا تو تم سے چھپا کر کیا فائدہ ۔یہ تو تم جانتے ہو کے میں نے یہ سب کیوں کیا ہان کیسے کیا یہ بتا ہوں ۔
بابا اور امما اکثر كهيت پر جاتے تھے ۔ڈرائیور کو میں نے پہلے ہے اپنے ساتھ ملا لیا تھا ۔ایک خطرناک سانپ کا بندوبست بھی اس ہے نے کیا تھا کیوں میں جانتا تھا کے پولیس كیس ہوگا اس لئے میں نے سانپ کا انتخاب کیا ۔
ڈرائیور نے راستے میں گاڑی خراب ہونے کا بہانہ کیا اور گاڑی سے باہر نکال تے ہوے سانپ کا پیٹآرا کھول دیا ۔سانپ نے اپنا کام کیا اور چلا گیا ۔
علی ۔کتنا ظلم اور کمینہ انسان ہی تو یہ کیہ کر میں وہاں سے چلا گیا ۔پھر سعد سے کبھی نہیں ملا مینری جاب لگ گئی اور میں دوسرے شہر شفٹ ہوگیا ۔
کافی ٹائم بعد میںرا آنا ہوا کسی کام سے تو پتا چلا کے سعد پاگل ہوگیا ہے اور پاگل خانے میں ہے ۔میں جب اسے ملنے گیا تو بتا نہیں سکتا وہ کس حال میں تھا ۔میں وہاں موجود ڈاکٹر سے ملا تو اس نے بتایا کے یہ سوتا نہیں ہے پوری پوری رات جاگتا رہتا ہے اور کبھی اگر سو بھی جاۓ تو ڈر کر اٹھ جاتا ہے اور چللہنے لگتا ہے ۔
میں سمجھ گیا کے اس کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔
انسان ایک کسان ہے جو بوتا ہے وہ کاٹا ہے ۔

Comments